#LIVEANDLETTOLIVE
شیئر
انگلیوں کے نشان سے منشیات کے استعمال کا اندازہ
شیئر
سائنسدانوں کے مطابق وہ کسی شخص کے فنگر پرنٹس (انگلیوں کے نشان) کا تجزیہ کر کے یہ بتا سکتے ہیں کہ کیا وہ منشیات کا استعمال کر رہا ہے یا نہیں۔
برطانیہ میں سرے یونیورسٹی کی ایک ٹیم نے یہ دکھایا ہے کہ جب کوئی شخص کوکین استمعال کرتا ہے اور جب یہ جسم میں سرایت کر جاتی ہے تو کچھ ایسے کیمیائی مادے پیدا ہوتے ہیں جن کا پتہ فنگر پرنٹس کی مدد سے چل سکتا ہے۔
سائنس دان یہ بھی کہتے ہیں کہ فنگر پرنٹس کی مدد سے نشے کا پتہ چلانے کے تجربات جیلوں، معمول کی کام کی جگہوں پر اور ایسے طبی مراکز میں مفید ہو سکتے ہیں جہاں نشہ کرنے والوں کا علاج کیا جاتا ہے۔
تاہم اس مقصد کے لیے جس آلے کی ضرورت ہوتی ہے اسے عملی طور پر استعمال کرنا ممکن نہیں کیونکہ اس کا سائز واشنگ مشین جتنا ہے اور وہ بہت منہگا بھی ہے۔
یہ معلوم کرنے کے لیے کہ آیا کسی شخص نے نشہ کیا ہوا ہے یا نہیں عام طور پر جسم کے سیال مادوں کے نمونوں مثلا خون، پیشاب یا لعابِ دہن پر انحصار کیا جاتا ہے۔
تاہم تحقیق کرنے کرنے والوں کو یقین ہے کہ فنگر پرنٹس کے ذریعے یہ بات جلدی معلوم ہو جائے گی اور یہ انسانوں کے لیے کم دخل اندازی کا باعث ہوگی۔
علاوہ ازیں غلط فنگر پرنٹس استعمال کرنا اور یوں خود کو بچانے کی کوشش کرنا بہت مشکل ہوگا۔
سائنس دانوں نے اپنی یہ تحقیق ’اینالِسٹ‘ نامی جریدے میں شائع کی ہے اور اس کی بنیاد دو کیمائی مادوں پر ہے جو اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب کوکین جسم میں گھل جاتی ہے۔لیکن یہ مادے انتہائی کم مقدار میں پسینے میں بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
چنانچہ جب فنگر پرنٹس لیے جاتے ہیں تو یہ کیمائی مادے کاغذ پر چپک جاتے ہیں۔ اس کے بعد ایک بڑے طیف پیما یا سپیکٹرو میٹر سے فنگر پرنٹس کا تجزیہ کیا جاتا ہے، جو کیمائی مواد کے ایٹمی سائز کی بنیاد پر اس کا پتہ چلا لیتا ہے۔
تحقیق کاروں نے بتایا ہے کہ وہ فنگر پرنٹس کی مدد سے وہی نتائج پیدا کر سکتے ہیں جو خون کے روایتی ٹیسٹ سے کیے جاتے ہیں۔
تجزیاتی اور فورنسک سائنس کی لیکچرار ڈاکٹر میلین بیلے نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’طیف پیما اتنا ہی بڑا ہے جتنی کہ کوئی واشنگ مشین اور جس طیف پیما کا ہم استعمال کر رہے ہیں اسے اگر خریدنے جائیں تو قیمیت چار لاکھ پاؤنڈ ہے۔ یہ آلہ سستا نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں سستے آلات بھی ہیں جن سے ’یہ نہایت دلچسپ امکان پیدا ہو گیا ہے کہ وہ دن آئے گا جب آپ یہ ٹیسٹ کہیں پر بھی کر سکیں گے۔‘
Comments
Post a Comment