#LIVEANDLETTOLIVE
اور پھر میں نے شیر کو پٹخ ڈالا
سابق چیف ایگزیکٹیو، تین بار کے صدرِ پاکستان، تین مدت کے چیف آف آرمی سٹاف، ایک مدت کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین اور ایک عدد ماڑی موٹی ملک گیر سیاسی جماعت کے مالک پرویز مشرف ریٹائرمنٹ کے آٹھ برس بعد بھی اپنی بات پر قائم ہیں کہ 1999 کی جنگِ کارگل پاکستان کی سب سے بڑی فوجی فتح تھی۔
’ہماری سیکنڈ لائن آف ڈیفنس نے پانچ مقامات سے کارگل میں داخل ہو کر بھارت کو گلے سے پکڑ لیا تھا لیکن سیاسی قیادت نے یہ عظیم موقع ضائع کر دیا۔ پھر بھی بھارت کو یہ تین ماہ کبھی نہیں بھولیں گے۔‘
پرویز مشرف نے یہ باتیں دو روز پہلے کراچی میں اپنی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ یوتھ ونگ کے بچوں سے کیں۔ اور یہ جانتے بوجھتے کیں کہ نواز شریف، جنرل عزیز، جنرل محمود، بروس ریڈل اور بل کلنٹن اب بھی حیات ہیں۔
پرویز مشرف صاحب ماشااللہ 72 برس کے ہو چکے ہیں اور72 برس کا آدمی کچھ بھی کہے اسے احتراماً سر جھکا کے ’جی سر جی‘ کہتے ہوئے سن لینا چاہیے۔ ویسے بھی ہماری تہذیب اس بنیاد پر کھڑی ہے کہ خطائے بزرگاں گرفتن خطا است ۔۔۔۔
عمر کا یہ وہ دور ہوتا ہے جس میں تنہائی کے مارے آدمی کا جی چاہتا ہے کہ بچے اس کے آس پاس آلتی پالتی بیٹھے رہیں اور وہ انھیں اپنے دلچسپ تجربات سے محظوظ کرتا رہے۔ بچوں کے سامنے کچھ بھی کہنا اس لیے محفوظ ہے کہ وہ قصے کی حقیقت اگر پرکھ نہ بھی پائیں تو اسے ایک دلچسپ کہانی سمجھ کے لطف اندوز ضرور ہوتے ہیں اور پھر ایک دوسرے کے کان میں کہتے ہیں ’بابا جی بہت انٹرسٹنگ ہیں۔‘
بابا جی نے کارگل میں صرف بھارت ہی کو گلے سے نہیں پکڑا بلکہ اس کے فوراً بعد نواز شریف کو گلے سے پکڑ لیا۔ وہ تو سعودی عرب غلط موقعے پر آ گیا اور بابا جی کے پنجوں سے چھڑا لے گیا۔ پھر 11/9 ہوگیا اور امریکہ نے بابا جی کو گلے سے پکڑ لیا اور انھوں نے یہ کہہ کر گلو خلاصی کروائی کہ بھاگوان جو تو کہتا ہے میں کرتا ہوں مگر گلا تو چھوڑ ظالم ۔۔۔
پھر بابا جی کی کچھ سمجھ میں نہ آیا تو رفیق تارڑ کے گلے سے صدارت اتار کے اپنے گلے میں ڈال لی۔ بعد ازاں وہ آئین کے گلے پڑ گئے اور 17ویں ترمیم قوم کے گلے میں ڈال لی۔ جب بابا جی نے اکبر بگٹی کو گلے سے پکڑا تو بلوچستان ان کے گلے پڑ گیا اور آج تک گلے کا ہار ہے۔
آخر آخر سپریم کورٹ کو بھی بابا جی نے کارگل کی طرح فتح کرنا چاہا۔ وہ تو عوام نے ساتھ نہیں دیا ورنہ افتخار محمد چوہدری کو مزا چکھا کر کارگل جیسی ایک اور فتح اپنے نام کر لیتے۔
الٹا آصف زرداری نے انھیں گلے سے پکڑ کے براستہ گارڈ آف آنر ایوانِ صدر سے باہر رکھ دیا اور پھر اگلی حکومت نے ان کے گلے میں آرٹیکل چھ کی چونڈی (کلپ) لگانے کی کوشش کی۔ وہ تو خیر ہوئی کہ سعادت مند ’جونیئرز ‘ نے بابا جی کے سامنے ڈاکٹروں کو ڈھال بنا کے کھڑا کر دیا تاکہ باقی وقت وہ قصے کہانیوں پر گزار لیں۔
’ہاں تو بچو میں یہ کہہ رہا تھا کہ جب 20 فٹ لمبا شیر میرے سامنے آیا تو میں بالکل خوفزدہ نہیں ہوا بلکہ مچان سے اتر کر اس کے سامنے سینہ تان کے کھڑا ہوگیا۔۔۔
مگر دادا جی کیا شیر 20 فٹ کا بھی ہوتا ہے؟
چلو دس فٹ کا کر لو۔۔۔ اب اس سے کم نہیں کروں گا۔۔۔ آرام سے کہانی سنو۔۔۔ تو جب میں مچان سے اتر کر شیر کے سامنے سینہ تان کے کھڑا ہوگیا تو میں نے شیر سے کہا مارو گولی مجھے۔۔۔
لیکن داد جی بندوق تو آپ کے پاس ۔۔۔؟؟
خاموشی سے بیٹھ کے سنتے ہو یا نہیں۔ایک تو آج کل کے بچے خود کو معلوم نہیں افلاطون کیوں سمجھتے ہیں ۔۔۔ ہاں تو پھر میں نے شیر سے کہا کہ مارو گولی مجھے۔ یہ سن کر شیر آبدیدہ ہوگیا اور میرے بوٹوں پر پاؤں رکھ کے کہا۔ یا استاد معاف کر دو تم انسان نہیں، انسان کے روپ میں اصلی باتصویر نسلی شیر ہو۔۔۔ اور پھر میں نے اس دس فٹ کی بلا کو گلے سے پکڑ کے بلی کی طرح زور سے پٹخ دیا ۔ بے چارا شیر کپڑے جھاڑتا ہوا سر جھکائے خجل خجل جنگل میں غائب ہوگیا‘۔۔۔۔۔(تالیاں)۔۔۔۔
Comments
Post a Comment