’ایم کیو ایم کو بھارتی حکومت سے مالی مدد ملتی رہی‘ - BBC Urdu
اوئن بینِٹ جونز
بی بی سی نیوز
ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین 20 برس سے زائد عرصے سے برطانیہ میں خود اختیار کردہ جلاوطنی گزار رہے ہیں
بی
بی سی کو مقتدر پاکستانی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان کی بڑی سیاسی
جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے سینیئر حکام نے برطانوی حکام کو بتایا ہے کہ
جماعت کو بھارتی حکومت سے مالی مدد ملتی رہی تھی۔
برطانوی حکام پہلے ہی ایم کیو ایم کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت تحقیقات کر رہے ہیں۔
بھارتی حکام نے ان دعووں کو قطعی طور پر بےبنیاد قرار دیا ہے جبکہ ایم کیو ایم نے کہا ہے کہ وہ افواہوں پر تبصرہ نہیں کرے گی۔
بی
بی سی کو بتایا گیا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں نے یہ انکشافات
باضابطہ ریکارڈ کیے گئے انٹرویوز میں کیے جو انھوں نے برطانوی حکام کو دیے
تھے۔
ایک اعلیٰ پاکستانی اہلکار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہ
دعویٰ بھی کیا ہے کہ ایم کیو ایم کے سینکڑوں کارکنوں نے گذشتہ ایک دہائی کے
دوران بھارت کے شمالی اور شمال مشرقی علاقوں میں قائم کیمپوں سے گولہ
بارود اور ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت بھی حاصل کی۔
پاکستانی
اہلکار کا کہنا ہے کہ 2006_2005 سے قبل ایم کیو ایم کے چند درمیانی درجے کے
ارکان کو تربیت دی گئی جبکہ حالیہ برسوں میں جماعت کے مزید جونیئر ارکان
کو تربیت دی گئی ہے۔
یہ دعوے کراچی پولیس کے ایک سینیئر افسر کی جانب
سے دو ماہ قبل کی گئی اس پریس کانفرنس کے بعد سامنے آئے ہیں جس میں ایس
ایس پی راؤ انوار نے بھارت پر متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں کو عسکری تربیت
فراہم کرنے کا الزام عائد کیا تھا اور حکومت سے درخواست کی ہے کہ متحدہ
قومی موومنٹ پر پابندی عائد کی جائے۔
انتخابی طاقت کے علاوہ ایم کیو ایم کی پاس خاصی سٹریٹ پاور بھی موجود ہے
اس پریس کانفرنس میں راؤ انوار
نے بتایا تھا کہ کیسے حراست میں لیے جانے والے دو افراد تھائی لینڈ کے
راستے بھارت گئے تاکہ انھیں بھارتی خفیہ ادارہ ’را‘ تربیت دے سکے۔
ایم کیو ایم نے اس پریس کانفرنس کو سیاسی ڈرامہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس کے پیچھے سیاسی مقاصد کارفرما ہیں۔
جب
لندن میں بھارت کے ہائی کمیشن سے متحدہ قومی موومنٹ کی مالی امداد اور اس
کے کارکنوں کو تربیت فراہم کرنے کے الزامات کے بارے میں سوال کیا گیا تو
بھارتی حکام کا کہنا تھا کہ ’ہمسایوں پر الزام تراشی کو حکومت کی انتظامی
ناکامی کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔‘
اس سلسلے میں ایم کیو ایم کے
ایک عہدے دار نے کہا ہے کہ ان کی جماعت بقول ان کے، افواہوں پر تبصرہ نہیں
کرے گی۔ انھوں نے بی بی سی سے مطالبہ کیا کہ وہ ’ہتک آمیز الزامات‘ نشر نہ
کرے۔
برطانوی حکام نے ایم کیو ایم کے خلاف سنہ 2010 میں اس وقت
تحقیقات شروع کی تھیں جب جماعت کے ایک سینیئر رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کو
شمالی لندن میں ان کی رہائش گاہ کے قریب چاقو کے وار کر کے ہلاک کر دیا گیا
تھا۔
انھی تحقیقات کے دوران پولیس کو لندن میں ایم کیو ایم کے دفتر
اور جماعت کے قائد الطاف حسین کے گھر سے پانچ لاکھ پاؤنڈ کی رقم ملی تھی جس
کے بعد منی لانڈرنگ کی تحقیقات بھی شروع کر دی گئی تھیں۔
پاکستانی
ذرائع ابلاغ کے مطابق تحقیقات کے دوران برطانوی حکام کو ایم کیو ایم کی ایک
عمارت سے ہتھیاروں کی ایک فہرست بھی ملی تھی جس میں مارٹر گولوں اور بموں
کا ذکر تھا اور ان کی قیمت بھی درج تھی۔
جب ایم کیو ایم ہڑتال کا اعلان کرتی ہے تو کراچی
کی سڑکیں سنسان ہو جاتی ہیں اور تمام شہر ایک جگہ تھم کر رہ جاتا ہے
ایم کیو ایم کے حکام سے جب اس فہرست کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انھوں نے اس بارے میں کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
جیسے جیسے برطانوی پولیس کی تحقیقات آگے بڑھتی گئیں برطانوی عدلیہ نے ایم کیو ایم کے خلاف سخت اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں۔
2011
میں ایک جج نے سیاسی پناہ کے ایک مقدمے کے دوران دریافت کیا کہ ’ایم کیو
ایم نے کراچی میں اپنے مخالف 200 سے زائد پولیس افسران کو قتل کیا ہے۔‘
گذشتہ
برس ایک اور برطانوی جج نے ایک اور مقدمے کے دوران دریافت کیا: ’اس بات کے
وسیع معروضی شواہد موجود ہیں کہ ایم کیو ایم عشروں سے تشدد سے کام لے رہی
ہے۔‘
ایم کیو ایم پر پاکستان کے اندر بھی دباؤ ہے۔ مارچ میں ملک کی
سکیورٹی فورسز نے کراچی میں ایم کیو ایم کے صدر دفتر پر چھاپہ مارا۔ ان کا
دعویٰ تھا کہ وہاں سے بڑی مقدار میں اسلحہ برآمد ہوا۔ ایم کیو ایم کا کہنا
ہے کہ پولیس اسلحہ چھپا کر وہاں لے گئی تھی اور یہ ظاہر کیا کہ یہ وہاں سے
برآمد ہوا ہے۔
پاکستانی پارلیمان میں 24 ارکان کے ساتھ ایم کیو ایم
ایک عرصے سے کراچی کی سیاست میں بڑی طاقت کے طور پر موجود ہے۔ اس جماعت کے
حامیوں کی بڑی تعداد ان مہاجروں پر مشتمل ہے جو تقسیم کے وقت ہندوستان سے
پاکستان منتقل ہوئے تھے۔
پریس کانفرنس میں راؤ انوار نے بتایا تھا کہ کیسے
حراست میں لیے جانے والے دو افراد تھائی لینڈ کے راستے بھارت گئے تاکہ
انھیں بھارتی خفیہ ادارہ ’را‘ تربیت دے سکے
مہاجروں کو شکایت ہے کہ انھیں
پاکستان میں طویل عرصے سے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ ایم کیو ایم کا اصرار
ہے کہ وہ ایک پرامن اور سیکیولر سیاسی جماعت ہے جو پاکستان کے متوسط طبقے
کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہے۔
انتخابی طاقت کے علاوہ ایم کیو ایم
کی پاس خاصی سٹریٹ پاور بھی موجود ہے۔ جب وہ ہڑتال کا اعلان کرتی ہے تو
کراچی کی سڑکیں سنسان ہو جاتی ہیں اور تمام شہر ایک جگہ تھم کر رہ جاتا ہے۔
ایم
کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین 20 برس سے زائد عرصے سے برطانیہ میں خود
اختیار کردہ جلاوطنی گزار رہے ہیں۔ انھیں 2002 میں برطانوی شہریت ملی تھی۔
بہت عرصے سے الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ ایم کیو ایم کراچی پر اپنی مرضی
مسلط کرنے کے لیے تشدد کا سہارا لیتی ہے۔
الطاف حسین سمیت ایم کیو
ایم کے کئی سینیئر حکام کو کالے دھن کو سفید کرنے کے الزام میں گرفتار کیا
گیا ہے، لیکن کسی پر فردِ جرم عائد نہیں کی گئی۔ جماعت کا اصرار ہے کہ اس
کی رقوم قانونی ہیں اور ان کا بڑا حصہ کراچی کے عطیہ کندگان اور تاجر
برادری کی جانب سے وصول ہوتا ہے۔
بھارت ایک عرصے سے الزام لگاتا رہا
ہے کہ پاکستانی حکام بھارت میں دہشت گرد حملے کرواتے ہیں۔ مثال کے طور پر
بھارت نے مطالبہ کر رکھا ہے کہ پاکستان 2008 میں ممبئی میں حملے کی سازش
کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔
ایم کیو ایم کے خلاف مقدمے میں
حالیہ پیش رفت سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان بھارت کے ان الزامات کا جواب
یہ کہہ کر دے گا بھارت کراچی میں متشدد عناصر کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ
لے۔
#LIVEANDLETTOLIVE بھارت کے نیشنل پارک میں بھتہ خور ہاتھیوں کا قبضہ نئی دہلی …..بھارت کے نیشنل پارک کے ہاتھیوں نے آنے جانے والوں سے اشیاء چھیننا معمول بنا لیا۔دنیا بھر میں بھتہ خوری اور چوری کے بڑھتے ہوئے واقعات کے سبب پولیس ویسے ہی بہت پریشان ہے، لیکن اب انسانوں کے ساتھ ساتھ انہیں جانوروں پر بھی کڑی نظر رکھنی پڑے گی۔جی ہاں بھارتی نیشنل پارک میں لوگوں سے بھتہ طلب کرتے ان ہاتھیوں سے وہاں آنے والے سیاح بے حد پریشان ہیں۔ہاتھیوں کا یہ جھنڈ دن دھاڑے سڑک پر نکل آتا ہے اور گاڑیوں کو صرف اس ہی صورت میں جانے کی اجازت ملتی ہے جب وہ ان ہاتھیوں کو کھانے پینے کی اشیاء دیتے ہیں۔ہاتھیوں کی اس غنڈہ گردی اور بھتہ خوری کے سبب نیشنل پارک کی سڑک پر ٹریفک جام معمول بن گیا ہے لیکن آخر کس میں اتنی ہمت ہے کہ ان ہاتھیوں کو روک پائے۔
#LIVEANDLETTOLIVE خیبرپختونخوا: بلدیاتی انتخابات میں فائرنگ سے1شخص ہلاک 10زخمی پشاور …..خیبرپختونخوا میں جاری بلدیاتی انتخابات کے دوران مختلف علاقوں میں بدنظمی ،فائرنگ ،دھینگا مشتی کے واقعات میں ایک شخص ہلاک جبکہ10افراد زخمی ہوگئے ہیں ،امن و امان کی خراب صورتحال کے پیش نظر فوج کو طلب کرلیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق کوہاٹ کے میروزئی پولنگ اسٹیشن میں فائرنگ سے زخمی ہونے والا شخص دم توڑ گیاجبکہ دیگر 2افراد زخمی ہیں ۔ادھرایبٹ آباد کے گورنمنٹ ہائی اسکول نمبر چار،لوئر دیر ، چارسدہ اور پشاور کے علاقے ناساپہ میں فوجی دستے پہنچ گئے۔بدنظمی ،فائرنگ اور جھگڑوں کے باعث پولنگ کا عمل کئی بار تعطل کا شکار ہوا ۔پشاور میں بلدیاتی انتخابات کی پولنگ کے حوالےسے عوامی سطح پر کافی جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ تاہم پولنگ کا عمل پیچیدہ ہونے کی وجہ سے ووٹرز کو کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ فائرنگ کی وجہ سے ناساپہ میں 3،کاکشال میں3، پلوسی میں ایک اور حسن گڑھی میں ایک شخص زخمی ہوا، کشیدگی کی وجہ سے اکثر پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ کا عمل بھی بار بارتعطل کا شکار رہا۔
#LIVEANDLETTOLIVE پاکستان اور زمبابوے کے درمیان پہلا ٹی ٹوئنٹی آج کھیلا جائے گا تاریخ اشاعت : 22 مئ 2015 ل لاہور………لوٹ آیا وہ دن جس کا تھا چھ سال سے انتظار ، غیر ملکی ٹیم پھر ایک بار پاکستانی گراؤنڈ میں اترے گی ،قذافی اسٹیڈیم میں پاک زمبابوے ٹی ٹوئنٹی ایکشن شام سات بجے شروع ہوگا ۔کرکٹ شائقین کا جوش عروج پر ہے ۔رپورٹ کے مطابقزمبابوے کرکٹ ٹیم کی گرم جوشی سے پاکستان کے میدانوں پر چھ سال سے جمی انتظار کی برف پگھل گئی۔لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں آج مقابلہ ہے دونوں ٹیموں کا سیریز کے پہلے ٹی ٹوئنٹی میں،کھلاڑی پُر عزم بھی ہیں اور پرُجوش بھی۔اپنے میدانوں پر اپنے کھلاڑیوں کو ایکشن میں دیکھنے کا موقع کوئی بھی ضائع نہیں کرنا چاہتا، یہی وجہ ہے کہ شائقین بھی بے چینی سے میچ کے انتظار میں ہیں۔آج کے میچ میں پہلی گیند گرتے ہی دُنیا کو پیغام پہنچ جائے گا کہ یہ ملک نہ صرف کرکٹ کے لیے محفوظ ہے بلکہ یہاں کے شائقین بھی مہمانوں کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔پاکستان اور زمبابوے کے درمیان یہ معرکہ پاکستانی وقت کے مطابق شام سات بجے شروع ہوگا ۔
Comments
Post a Comment