#LIVEANDLETTOLIVE
بھارتی حکام نے ان دعووں کو قطعی طور پر بےبنیاد قرار دیا ہے جبکہ ایم کیو ایم نے کہا ہے کہ وہ افواہوں پر تبصرہ نہیں کرے گی۔
بی بی سی کو بتایا گیا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں نے یہ انکشافات باضابطہ ریکارڈ کیے گئے انٹرویوز میں کیے جو انھوں نے برطانوی حکام کو دیے تھے۔
ایک اعلیٰ پاکستانی اہلکار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ایم کیو ایم کے سینکڑوں کارکنوں نے گذشتہ ایک دہائی کے دوران بھارت کے شمالی اور شمال مشرقی علاقوں میں قائم کیمپوں سے گولہ بارود اور ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت بھی حاصل کی۔
پاکستانی اہلکار کا کہنا ہے کہ 2006_2005 سے قبل ایم کیو ایم کے چند درمیانی درجے کے ارکان کو تربیت دی گئی جبکہ حالیہ برسوں میں جماعت کے مزید جونیئر ارکان کو تربیت دی گئی ہے۔
یہ دعوے کراچی پولیس کے ایک سینیئر افسر کی جانب سے دو ماہ قبل کی گئی اس پریس کانفرنس کے بعد سامنے آئے ہیں جس میں ایس ایس پی راؤ انوار نے بھارت پر متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں کو عسکری تربیت فراہم کرنے کا الزام عائد کیا تھا اور حکومت سے درخواست کی ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پر پابندی عائد کی جائے۔
اس پریس کانفرنس میں راؤ انوار نے بتایا تھا کہ کیسے حراست میں لیے جانے والے دو افراد تھائی لینڈ کے راستے بھارت گئے تاکہ انھیں بھارتی خفیہ ادارہ ’را‘ تربیت دے سکے۔
ایم کیو ایم نے اس پریس کانفرنس کو سیاسی ڈرامہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس کے پیچھے سیاسی مقاصد کارفرما ہیں۔
جب لندن میں بھارت کے ہائی کمیشن سے متحدہ قومی موومنٹ کی مالی امداد اور اس کے کارکنوں کو تربیت فراہم کرنے کے الزامات کے بارے میں سوال کیا گیا تو بھارتی حکام کا کہنا تھا کہ ’ہمسایوں پر الزام تراشی کو حکومت کی انتظامی ناکامی کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔‘
اس سلسلے میں ایم کیو ایم کے ایک عہدے دار نے کہا ہے کہ ان کی جماعت بقول ان کے، افواہوں پر تبصرہ نہیں کرے گی۔ انھوں نے بی بی سی سے مطالبہ کیا کہ وہ ’ہتک آمیز الزامات‘ نشر نہ کرے۔
برطانوی حکام نے ایم کیو ایم کے خلاف سنہ 2010 میں اس وقت تحقیقات شروع کی تھیں جب جماعت کے ایک سینیئر رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کو شمالی لندن میں ان کی رہائش گاہ کے قریب چاقو کے وار کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔
انھی تحقیقات کے دوران پولیس کو لندن میں ایم کیو ایم کے دفتر اور جماعت کے قائد الطاف حسین کے گھر سے پانچ لاکھ پاؤنڈ کی رقم ملی تھی جس کے بعد منی لانڈرنگ کی تحقیقات بھی شروع کر دی گئی تھیں۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق تحقیقات کے دوران برطانوی حکام کو ایم کیو ایم کی ایک عمارت سے ہتھیاروں کی ایک فہرست بھی ملی تھی جس میں مارٹر گولوں اور بموں کا ذکر تھا اور ان کی قیمت بھی درج تھی۔
ایم کیو ایم کے حکام سے جب اس فہرست کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انھوں نے اس بارے میں کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
جیسے جیسے برطانوی پولیس کی تحقیقات آگے بڑھتی گئیں برطانوی عدلیہ نے ایم کیو ایم کے خلاف سخت اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں۔
2011 میں ایک جج نے سیاسی پناہ کے ایک مقدمے کے دوران دریافت کیا کہ ’ایم کیو ایم نے کراچی میں اپنے مخالف 200 سے زائد پولیس افسران کو قتل کیا ہے۔‘
گذشتہ برس ایک اور برطانوی جج نے ایک اور مقدمے کے دوران دریافت کیا: ’اس بات کے وسیع معروضی شواہد موجود ہیں کہ ایم کیو ایم عشروں سے تشدد سے کام لے رہی ہے۔‘
ایم کیو ایم پر پاکستان کے اندر بھی دباؤ ہے۔ مارچ میں ملک کی سکیورٹی فورسز نے کراچی میں ایم کیو ایم کے صدر دفتر پر چھاپہ مارا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہاں سے بڑی مقدار میں اسلحہ برآمد ہوا۔ ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ پولیس اسلحہ چھپا کر وہاں لے گئی تھی اور یہ ظاہر کیا کہ یہ وہاں سے برآمد ہوا ہے۔
پاکستانی پارلیمان میں 24 ارکان کے ساتھ ایم کیو ایم ایک عرصے سے کراچی کی سیاست میں بڑی طاقت کے طور پر موجود ہے۔ اس جماعت کے حامیوں کی بڑی تعداد ان مہاجروں پر مشتمل ہے جو تقسیم کے وقت ہندوستان سے پاکستان منتقل ہوئے تھے۔
مہاجروں کو شکایت ہے کہ انھیں پاکستان میں طویل عرصے سے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ ایم کیو ایم کا اصرار ہے کہ وہ ایک پرامن اور سیکیولر سیاسی جماعت ہے جو پاکستان کے متوسط طبقے کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہے۔
انتخابی طاقت کے علاوہ ایم کیو ایم کی پاس خاصی سٹریٹ پاور بھی موجود ہے۔ جب وہ ہڑتال کا اعلان کرتی ہے تو کراچی کی سڑکیں سنسان ہو جاتی ہیں اور تمام شہر ایک جگہ تھم کر رہ جاتا ہے۔
ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین 20 برس سے زائد عرصے سے برطانیہ میں خود اختیار کردہ جلاوطنی گزار رہے ہیں۔ انھیں 2002 میں برطانوی شہریت ملی تھی۔ بہت عرصے سے الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ ایم کیو ایم کراچی پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے تشدد کا سہارا لیتی ہے۔
الطاف حسین سمیت ایم کیو ایم کے کئی سینیئر حکام کو کالے دھن کو سفید کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے، لیکن کسی پر فردِ جرم عائد نہیں کی گئی۔ جماعت کا اصرار ہے کہ اس کی رقوم قانونی ہیں اور ان کا بڑا حصہ کراچی کے عطیہ کندگان اور تاجر برادری کی جانب سے وصول ہوتا ہے۔
بھارت ایک عرصے سے الزام لگاتا رہا ہے کہ پاکستانی حکام بھارت میں دہشت گرد حملے کرواتے ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت نے مطالبہ کر رکھا ہے کہ پاکستان 2008 میں ممبئی میں حملے کی سازش کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔
ایم کیو ایم کے خلاف مقدمے میں حالیہ پیش رفت سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان بھارت کے ان الزامات کا جواب یہ کہہ کر دے گا بھارت کراچی میں متشدد عناصر کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ لے۔
’ایم کیو ایم کو بھارتی حکومت سے مالی مدد ملتی رہی‘ - BBC Urdu
اوئن بینِٹ جونز
بی بی سی نیوز
بی
بی سی کو مقتدر پاکستانی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان کی بڑی سیاسی
جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے سینیئر حکام نے برطانوی حکام کو بتایا ہے کہ
جماعت کو بھارتی حکومت سے مالی مدد ملتی رہی تھی۔
برطانوی حکام پہلے ہی ایم کیو ایم کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت تحقیقات کر رہے ہیں۔بھارتی حکام نے ان دعووں کو قطعی طور پر بےبنیاد قرار دیا ہے جبکہ ایم کیو ایم نے کہا ہے کہ وہ افواہوں پر تبصرہ نہیں کرے گی۔
بی بی سی کو بتایا گیا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں نے یہ انکشافات باضابطہ ریکارڈ کیے گئے انٹرویوز میں کیے جو انھوں نے برطانوی حکام کو دیے تھے۔
ایک اعلیٰ پاکستانی اہلکار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ایم کیو ایم کے سینکڑوں کارکنوں نے گذشتہ ایک دہائی کے دوران بھارت کے شمالی اور شمال مشرقی علاقوں میں قائم کیمپوں سے گولہ بارود اور ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت بھی حاصل کی۔
پاکستانی اہلکار کا کہنا ہے کہ 2006_2005 سے قبل ایم کیو ایم کے چند درمیانی درجے کے ارکان کو تربیت دی گئی جبکہ حالیہ برسوں میں جماعت کے مزید جونیئر ارکان کو تربیت دی گئی ہے۔
یہ دعوے کراچی پولیس کے ایک سینیئر افسر کی جانب سے دو ماہ قبل کی گئی اس پریس کانفرنس کے بعد سامنے آئے ہیں جس میں ایس ایس پی راؤ انوار نے بھارت پر متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں کو عسکری تربیت فراہم کرنے کا الزام عائد کیا تھا اور حکومت سے درخواست کی ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پر پابندی عائد کی جائے۔
اس پریس کانفرنس میں راؤ انوار نے بتایا تھا کہ کیسے حراست میں لیے جانے والے دو افراد تھائی لینڈ کے راستے بھارت گئے تاکہ انھیں بھارتی خفیہ ادارہ ’را‘ تربیت دے سکے۔
ایم کیو ایم نے اس پریس کانفرنس کو سیاسی ڈرامہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس کے پیچھے سیاسی مقاصد کارفرما ہیں۔
جب لندن میں بھارت کے ہائی کمیشن سے متحدہ قومی موومنٹ کی مالی امداد اور اس کے کارکنوں کو تربیت فراہم کرنے کے الزامات کے بارے میں سوال کیا گیا تو بھارتی حکام کا کہنا تھا کہ ’ہمسایوں پر الزام تراشی کو حکومت کی انتظامی ناکامی کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔‘
اس سلسلے میں ایم کیو ایم کے ایک عہدے دار نے کہا ہے کہ ان کی جماعت بقول ان کے، افواہوں پر تبصرہ نہیں کرے گی۔ انھوں نے بی بی سی سے مطالبہ کیا کہ وہ ’ہتک آمیز الزامات‘ نشر نہ کرے۔
برطانوی حکام نے ایم کیو ایم کے خلاف سنہ 2010 میں اس وقت تحقیقات شروع کی تھیں جب جماعت کے ایک سینیئر رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کو شمالی لندن میں ان کی رہائش گاہ کے قریب چاقو کے وار کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔
انھی تحقیقات کے دوران پولیس کو لندن میں ایم کیو ایم کے دفتر اور جماعت کے قائد الطاف حسین کے گھر سے پانچ لاکھ پاؤنڈ کی رقم ملی تھی جس کے بعد منی لانڈرنگ کی تحقیقات بھی شروع کر دی گئی تھیں۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق تحقیقات کے دوران برطانوی حکام کو ایم کیو ایم کی ایک عمارت سے ہتھیاروں کی ایک فہرست بھی ملی تھی جس میں مارٹر گولوں اور بموں کا ذکر تھا اور ان کی قیمت بھی درج تھی۔
ایم کیو ایم کے حکام سے جب اس فہرست کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انھوں نے اس بارے میں کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
جیسے جیسے برطانوی پولیس کی تحقیقات آگے بڑھتی گئیں برطانوی عدلیہ نے ایم کیو ایم کے خلاف سخت اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں۔
2011 میں ایک جج نے سیاسی پناہ کے ایک مقدمے کے دوران دریافت کیا کہ ’ایم کیو ایم نے کراچی میں اپنے مخالف 200 سے زائد پولیس افسران کو قتل کیا ہے۔‘
گذشتہ برس ایک اور برطانوی جج نے ایک اور مقدمے کے دوران دریافت کیا: ’اس بات کے وسیع معروضی شواہد موجود ہیں کہ ایم کیو ایم عشروں سے تشدد سے کام لے رہی ہے۔‘
ایم کیو ایم پر پاکستان کے اندر بھی دباؤ ہے۔ مارچ میں ملک کی سکیورٹی فورسز نے کراچی میں ایم کیو ایم کے صدر دفتر پر چھاپہ مارا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہاں سے بڑی مقدار میں اسلحہ برآمد ہوا۔ ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ پولیس اسلحہ چھپا کر وہاں لے گئی تھی اور یہ ظاہر کیا کہ یہ وہاں سے برآمد ہوا ہے۔
پاکستانی پارلیمان میں 24 ارکان کے ساتھ ایم کیو ایم ایک عرصے سے کراچی کی سیاست میں بڑی طاقت کے طور پر موجود ہے۔ اس جماعت کے حامیوں کی بڑی تعداد ان مہاجروں پر مشتمل ہے جو تقسیم کے وقت ہندوستان سے پاکستان منتقل ہوئے تھے۔
مہاجروں کو شکایت ہے کہ انھیں پاکستان میں طویل عرصے سے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ ایم کیو ایم کا اصرار ہے کہ وہ ایک پرامن اور سیکیولر سیاسی جماعت ہے جو پاکستان کے متوسط طبقے کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہے۔
انتخابی طاقت کے علاوہ ایم کیو ایم کی پاس خاصی سٹریٹ پاور بھی موجود ہے۔ جب وہ ہڑتال کا اعلان کرتی ہے تو کراچی کی سڑکیں سنسان ہو جاتی ہیں اور تمام شہر ایک جگہ تھم کر رہ جاتا ہے۔
ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین 20 برس سے زائد عرصے سے برطانیہ میں خود اختیار کردہ جلاوطنی گزار رہے ہیں۔ انھیں 2002 میں برطانوی شہریت ملی تھی۔ بہت عرصے سے الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ ایم کیو ایم کراچی پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے تشدد کا سہارا لیتی ہے۔
الطاف حسین سمیت ایم کیو ایم کے کئی سینیئر حکام کو کالے دھن کو سفید کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے، لیکن کسی پر فردِ جرم عائد نہیں کی گئی۔ جماعت کا اصرار ہے کہ اس کی رقوم قانونی ہیں اور ان کا بڑا حصہ کراچی کے عطیہ کندگان اور تاجر برادری کی جانب سے وصول ہوتا ہے۔
بھارت ایک عرصے سے الزام لگاتا رہا ہے کہ پاکستانی حکام بھارت میں دہشت گرد حملے کرواتے ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت نے مطالبہ کر رکھا ہے کہ پاکستان 2008 میں ممبئی میں حملے کی سازش کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔
ایم کیو ایم کے خلاف مقدمے میں حالیہ پیش رفت سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان بھارت کے ان الزامات کا جواب یہ کہہ کر دے گا بھارت کراچی میں متشدد عناصر کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ لے۔
Comments
Post a Comment