#LIVEANDLETTOLIVE
رپورٹ کے مطابق دہشت گردی میں اضافے کی بڑی وجہ عراق اور شام میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ، نائجیریا میں بوکو حرام اور افغانستان میں طالبان کی کارروائیاں ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2014 میں دہشت گردی کے واقعات میں 33 ہزار افراد اپنے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2014 میں دنیا کے 95 ممالک شدت پسندی کے 13 ہزار 463 واقعات پیش آئے اور اس میں 32 ہزار سات سو زائد افراد ہلاک ہوئے جبکہ گذشتہ سال شدت پسندوں نے نو ہزار چار سو افراد کو اغوا کیا اور یہ تعداد سال 2013 کے مقابلے میں دوگنی ہے۔
ایران سے جوہری پروگرام پر بات چیت کے برعکس ایران کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس نے شدت گروپوں کی پشت پناہی روکی نہیں ہے اور ان میں لبنان میں حزب اللہ اور غزہ میں حماس شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال شدت پسندی کے 20 واقعات میں سو سے زائد افراد مارے گئے۔ ان واقعات میں سب سے زیادہ ہلاکتیں موصل میں ہوئیں جہاں دولتِ سالامیہ نے ایک جیل پر حملہ کر کہ670 شیعہ مسلمان قیدیوں کو ہلاک کر دیا جبکہ دوسرے واقعے میں پاکستان کے شہر پشاور میں طالبان نے بچوں کے سکول پر حملہ کر کے بچوں سمیت 150 افراد کو ہلاک کر دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ کی عالمی سطح پر شدت پسندی کی کارروائیوں میں کمی آئی ہے جبکہ دولتِ اسلامیہ دنیا کا سب سے بڑا شدت پسند گروپ بن گیا ہے اور اس میں بڑی تعداد میں غیر ملکی جنگجو شامل ہو رہے ہیں۔
’دسمبر کے آخر تک 16 ہزار غیر ملکی دہشت گرد شام گئے اور تعداد گذشتہ 20 سال میں کسی بھی عرصے کے دوران پاکستان، افغانستان، عراق، یمن اور صومالیہ جانے والے شدت پسندوں سے زیادہ ہے۔‘
’دولتِ اسلامیہ نے 2014 میں عراق اور شام میں غیر معمولی پر علاقوں پر قبضہ کیا ہے اور اس کی غیر ملکی شدت پسندوں کو بھرتی کرنے کی صلاحیت برقرار ہے اور اس نے لیبیا، نائجیریا اور مصر میں اتحاد قائم کر لیا ہے۔ اس کے علاوہ مغرب میں کسی شدت پسند گروپ سے تعلق نہ رکھنے والے شدت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ شدت پسندوں نے اپنے زیر تسلط برادریوں کو ڈرانے دھمکانے اور ان کو دبانے کے لیے انتہائی شدت پسند طریقے اپنائے ہیں۔‘
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے اپف پی کے مطابق امریکی محکمۂ خارجہ میں انسداد دہشت گردی کی اعلیٰ اہلکار ٹینا کیدونوو نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ’دہشت گردی کے جس چلینج کا ہمیں سامنا ہے وہ تیزی سے بڑھا رہا ہے اور ہمیں درست اندازہ نہیں لگا سکتے ہیں کہ یہ آئندہ دہائی بلکہ یہاں تک کہ ایک سال کے اندر کیا شکل اختیار کرے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ہمیں ایسے ماحول سے نمٹنے کی زیادہ ضرورت ہے جہاں شدت پسندی فروغ پاتی ہے اور پھر وہاں سے دہشت گردی کی تحریکیں شروع ہوتی ہیں۔
’دنیا میں دہشت گردی میں اضافہ، پاکستان میں کمی‘ - BBC Urdu
امریکی
محکمہ خارجہ نے دہشت گردی سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ سال
2014 میں دہشت گردی کے واقعات میں ایک تہائی اضافہ ہوا اور گذشتہ سال کے
مقابلے میں 80 فیصد زیادہ ہلاکتیں ہوئی۔
امریکی محکمہ خارجہ کی
سالانہ رپورٹ کے مطابق 2014 کے دوران پاکستان، فلپائن، نیپال اور روس میں
دہشت گردی کے واقعات میں کمی ہوئی ہے۔رپورٹ کے مطابق دہشت گردی میں اضافے کی بڑی وجہ عراق اور شام میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ، نائجیریا میں بوکو حرام اور افغانستان میں طالبان کی کارروائیاں ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2014 میں دہشت گردی کے واقعات میں 33 ہزار افراد اپنے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2014 میں دنیا کے 95 ممالک شدت پسندی کے 13 ہزار 463 واقعات پیش آئے اور اس میں 32 ہزار سات سو زائد افراد ہلاک ہوئے جبکہ گذشتہ سال شدت پسندوں نے نو ہزار چار سو افراد کو اغوا کیا اور یہ تعداد سال 2013 کے مقابلے میں دوگنی ہے۔
ایران سے جوہری پروگرام پر بات چیت کے برعکس ایران کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس نے شدت گروپوں کی پشت پناہی روکی نہیں ہے اور ان میں لبنان میں حزب اللہ اور غزہ میں حماس شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال شدت پسندی کے 20 واقعات میں سو سے زائد افراد مارے گئے۔ ان واقعات میں سب سے زیادہ ہلاکتیں موصل میں ہوئیں جہاں دولتِ سالامیہ نے ایک جیل پر حملہ کر کہ670 شیعہ مسلمان قیدیوں کو ہلاک کر دیا جبکہ دوسرے واقعے میں پاکستان کے شہر پشاور میں طالبان نے بچوں کے سکول پر حملہ کر کے بچوں سمیت 150 افراد کو ہلاک کر دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ کی عالمی سطح پر شدت پسندی کی کارروائیوں میں کمی آئی ہے جبکہ دولتِ اسلامیہ دنیا کا سب سے بڑا شدت پسند گروپ بن گیا ہے اور اس میں بڑی تعداد میں غیر ملکی جنگجو شامل ہو رہے ہیں۔
’دسمبر کے آخر تک 16 ہزار غیر ملکی دہشت گرد شام گئے اور تعداد گذشتہ 20 سال میں کسی بھی عرصے کے دوران پاکستان، افغانستان، عراق، یمن اور صومالیہ جانے والے شدت پسندوں سے زیادہ ہے۔‘
’دولتِ اسلامیہ نے 2014 میں عراق اور شام میں غیر معمولی پر علاقوں پر قبضہ کیا ہے اور اس کی غیر ملکی شدت پسندوں کو بھرتی کرنے کی صلاحیت برقرار ہے اور اس نے لیبیا، نائجیریا اور مصر میں اتحاد قائم کر لیا ہے۔ اس کے علاوہ مغرب میں کسی شدت پسند گروپ سے تعلق نہ رکھنے والے شدت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ شدت پسندوں نے اپنے زیر تسلط برادریوں کو ڈرانے دھمکانے اور ان کو دبانے کے لیے انتہائی شدت پسند طریقے اپنائے ہیں۔‘
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے اپف پی کے مطابق امریکی محکمۂ خارجہ میں انسداد دہشت گردی کی اعلیٰ اہلکار ٹینا کیدونوو نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ’دہشت گردی کے جس چلینج کا ہمیں سامنا ہے وہ تیزی سے بڑھا رہا ہے اور ہمیں درست اندازہ نہیں لگا سکتے ہیں کہ یہ آئندہ دہائی بلکہ یہاں تک کہ ایک سال کے اندر کیا شکل اختیار کرے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ہمیں ایسے ماحول سے نمٹنے کی زیادہ ضرورت ہے جہاں شدت پسندی فروغ پاتی ہے اور پھر وہاں سے دہشت گردی کی تحریکیں شروع ہوتی ہیں۔
Comments
Post a Comment